پروجیکٹ عمران کے مالکان نے جب مہاتما کی ”بوم بوم“ کو فائنل ٹچ دینے کے لئے انتخابات سے پہلے ”مجسمہ صادق و امین“ کو گاؤں گاؤں اور شہر شہر ...
پروجیکٹ عمران کے مالکان نے جب مہاتما کی ”بوم بوم“ کو فائنل ٹچ دینے کے لئے انتخابات سے پہلے ”مجسمہ صادق و امین“ کو گاؤں گاؤں اور شہر شہر بھیج کر بڑے بڑے جلسوں سے خطاب کر کے عوام کو بیوقوف بنانے کا ٹاسک دیا تو سرکار میونسپل اسٹیڈیم میاں چنوں میں تشریف لائے تھے۔ ہمارے کچھ دوست بھی مہاتما کا بڑے قریب سے دیدار کرنے کے لئے اسٹیج کے بالکل سامنے موجود تھے، ایک دوست نے یادگار کے طور پر اپنے موبائل میں اس وقت تصویر بنا لی جب خان صاحب گہری سوچوں میں گم سم، ماحول سے بے نیاز اپنی نشست پر تشریف فرما تھے۔
ہر بندے کا تصویر کھینچنے کا اپنا اپنا زاویہ نظر یا اینگل ہوتا ہے جس دوست نے وہ خاص کلک اپنے کیمرے میں محفوظ کیا تھا اس نے مجھے دکھاتے ہوئے ایک تاریخی جملہ بولا تھا جو آج کے منظرنامہ پر بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ جسے اس وقت تو ہم نے مذاق میں گول کر دیا تھا مگر کون جانے کہ جس عوام کو ہماری اشرافیہ ریورڈ سمجھتی ہے اس میں کچھ گوہر نایاب بھی ہوتے ہیں ”جو سب سمجھتے ہیں“
مگر وہ اس وجہ سے خاموش رہتے ہیں کہ نقار خانے میں طوطی کی آواز کو بھلا کون سنتا ہے؟ جملہ درج کرنے سے پہلے اس کلک کی خاص بات پہلے شیئر کر دوں تاکہ جملے کی افادیت دگنی ہو جائے۔ اس کلک میں واضح طور پر مشاہدہ کیا جا سکتا تھا کہ
”یورپ کو یورپ میں رہنے والوں سے بھی زیادہ جاننے کا دعوی رکھنے والے مہاتما اپنے اس دراز آزار بند سے بالکل ناواقف تھے جو شلوار میں سے جھانک کر اپنے وجود کا ثبوت ایک بھرپور مجمع کو فراہم کر رہا تھا“
تو اس منظر پر میرے دوست کا کہنا تھا کہ
”جناب ملاحظہ فرما لیں کہ یہ بندہ ہمارا وزیراعظم بننے جا رہا ہے جو دوسروں کے متعلق بہت کچھ جانتا ہے مگر خود کے وجود سے جسے وہ کئی سالوں سے اٹھائے پھرتا ہے ناواقف ہے، جو خود سے اتنا لاتعلق ہے وہ عوام سے رشتہ جوڑ پائے گا“ ؟
اب اس جملے کو آج میں جوڑ کر دیکھیں تو بہت کچھ عیاں ہوتا نظر آ رہا ہے، وہی خان صاحب ہیں جو ساڑھے تین سال ناکام ترین حکومت کرنے کے بعد الٹی شلوار پہن کر اسٹیج پر چڑھ گئے اور فدائین عمران نے اس بے ہودگی کو بھی ایک ”دیوتائی ٹرینڈ“ قرار دے ڈالا جو کہ خاص اور چنیدہ ہستی کا خاصہ ہوتا ہے ہر ایک کی اتنی اڑان کہاں؟ ایسے عقیدت مندوں کی سوچ پر ماتم ہی کیا جا سکتا ہے جو مہاتما کے کالے کرتوتوں کا محاسبہ کرنے کی بجائے انہیں کارنامہ سمجھ کر ٹرینڈ سیٹنگ میں لگ جائیں۔ عقیدت مندوں کا بھی اس میں کیا قصور ہو سکتا ہے چونکہ مہاتما کا تعلق ایک ایسی فیلڈ سے رہا ہے جس میں ”سب چلتا ہے“
یعنی کرکٹ کے میدان میں کھیلنے والے کھلاڑیوں کا ہر اسٹائل ایک ٹرینڈ بن جاتا ہے اور کھلاڑی اس حقیقت سے آگاہ ہوتے ہیں اور کیمروں کی فوٹیج یا فوکس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بے قابو ہونے کی کوششوں میں مگن رہتے ہیں، اسی سٹارڈم سے فائدہ اٹھانے کے چکروں میں بھولے بھالے عوام اور پروجیکٹ عمران والے مارے گئے اور اب یہ گلیمر کی دنیا کا مہان جس نے اپنے گلیمر کا فائدہ اٹھاتے ہوئے جوانی کی بھرپور رنگینیاں انجوائے کیں اور عمر کے آخری حصہ میں روحانی چوغہ پہن کر ساڑھے تین سال تک لاڈلا بن کر حکومت کر ڈالی اور اب مستقل نجات دہندہ بنے رہنے کا حسین سپنا آنکھوں میں سجائے تمام حدیں پھلانگ چکے ہیں اور اب تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ
”ہن آ رام جے مطلب تسلی ہو گئی“؟
ہم فدائین عمران کو بالکل بے قصور بلکہ معصوم سمجھتے ہیں۔ کیونکہ وہ ممتاز مفتی، نسیم حجازی، بابا اشفاق احمد، عمیرہ احمد کے دیس میں بستے ہیں اور راجہ گدھ جیسے ادب سے مستفید ہوتے ہیں اور لمحہ موجود میں احمد رفیق اختر، سرفراز شاہ اور طارق جمیل جیسے مبلغین کے فرمان سن کر خوش ہوتے رہتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ جو ہمارے مقدس اسلاف ہیں ہیروز تراشنے کا کام بڑا ہی تسلی بخش کرتے ہیں اور ہیرو ورشپ کا بھی ماحول بنا دیتے ہیں اور رہی سہی کسر اوریا مقبول جان، ہارون رشید اور حسن نثار جیسے سستے دانشور پوری کر دیتے ہیں، دو لفظ بول دینے سے ان کا کیا جاتا ہے بھگتنی تو عوام نے ہوتی ہے جو فقط طفل تسلیوں پر ہی بہل جاتے ہیں۔ حسن نثار کدھر ہیں جو اپنی سنہری باتوں کے طور پر کہا کرتے تھے کہ اس ملک میں جو جتنا طاقتور ہوتا ہے اس کا اتنا ہی بڑا منہ اور ہاتھ ہوتا ہے جس کے ذریعے وہ اپنی اپنی بساط کے مطابق لوٹ کر کے چلتا بنتا ہے وہ اب لاڈلے کی لوٹ مار پر خاموش کیوں ہیں؟
کیا وہ یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس لوٹ مار میں مہاتما کا کوئی ہاتھ نہیں ہے بلکہ یہ سب ان کی روحانی گینگ کا کیا دھرا ہے اس لئے صادق و امین بے قصور اور اور دودھ کے دھلے ہیں؟
آج کل ارشد شریف بھی منظر سے غائب ہیں جو کہا کرتے تھے کہ ”ہمارا نجات دہندہ پانی کی آ دھی بوتل تک ضائع نہیں ہونے دیتا“؟
ویسے کمال ہے بلکہ سلام ہے عقیدت میں اندھے ان اینکرز پر جو اپنے پروٹوکول یا ڈیکورم سے انحراف کرتے ہوئے اتنا آگے نکل گئے کہ یوں محسوس ہونے لگا جیسے ”فنافی المسیحا“ ہو چکے ہوں اور ایک ایسے بندے کو لیڈر بنا ڈالا جو اس قسم کی بھاشن بازیاں کرتا رہتا ہے کہ سکون تو قبر میں ملے گا۔
قبر میں آپ سے پوچھا جائے گا کہ تم نے حق کا ساتھ کیوں نہیں دیا۔
قیامت والے دن کیا منہ دکھاؤ گے۔
میں خطرناک بن جاؤں گا۔ میرے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے۔
نیوٹرل تو جانور ہوتا ہے۔
اب نفسیات کے گیانی ہی ہماری بہتر طور پر رہنمائی کر سکتے ہیں کہ ایسے بندے کا کیا مسئلہ ہو سکتا ہے جسے سب کچھ خود میں دکھائی دینے لگے اور عقل کل ہونے کے زعم کا شکار ہو جائے؟

کوئی تبصرے نہیں