عجیب سے بات ہے کہ جب ہمارے ادارے نے سیلاب متاثرہ خواتین کے لیے پیڈز اور دیگر سینٹری سامان کے لیے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا تو کچھ لوگوں نے ...
عجیب سے بات ہے کہ جب ہمارے ادارے نے سیلاب متاثرہ خواتین کے لیے پیڈز اور دیگر سینٹری سامان کے لیے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا تو کچھ لوگوں نے اس اپیل پر اعتراض کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ موضوع پر کھلے عام بات نہیں ہونی چاہیے۔
سیلاب سے متاثرہ خواتین کے لیے فلاحی کاموں میں مصروف ایک ادارے نے جب سینٹری اشیاء کے لیے چندہ اکٹھا کرنا شروع کیا تو بہت سے لوگوں کا ردعمل کافی حیران کن تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ایک ممنوعہ موضوع ہے، اس ہر کھلے عام بات نہیں ہونی چاہیے۔
راقم الحروف لاہور میں موجود 12 پیرا میڈیکل کالجز کی چین ’احمد گروپ آف کالجز‘ کے ساتھ مل کر سیلاب متاثرین کے لیے کام کر رہی ہیں۔ اس ادارے نے اپنی اخلاقی ذمہ داری سمجھتے ہوئے میڈیکل اور راشن کیمپ کا آغاز کیا۔ ساتھ ہی اپنے بارہ مختلف کالجز سے راشن اور میڈیکل کیمپس کا آغاز کیا۔ اس دوران متاثرین کو کھانے، کپڑے، ادویات، خیموں، ائر بوٹس، نومولود بچوں کے لیے فارمولہ دودھ، مویشیوں کا چارہ، کپڑے، جوتے وغیرہ تک مہیا کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا۔
پیرا میڈیکل کالجز کا 12 مختلف مقامات پر کیمپس کا ہونا ریلیف کی ان سرگرمیوں میں نہایت معاون ثابت ہوا۔ ان کے پاس میڈیکل ٹیم کو لیڈ کرنے کے لیے ڈاکٹرز موجود تھے اور نرسنگ سٹاف بھی تھا۔ جب خواتین ان میڈیکل کیمپس میں آنا شروع ہوئیں تو جلدی امراض، ہیضے کے ساتھ جو شکایت سب سے زیادہ سنی گئی وہ خواتین کی ماہواری میں بے قاعدگی کی تھی۔ صدمے کی کیفیت میں ماہواری اپنی تاریخ سے پہلے اچانک ہو جاتی ہے۔ یہ ایک عام سی بات ہے لیکن گھر، پردے اور چار دیواری کے اندر رہ کر کبھی کسی کو یہ ادراک نہیں ہوتا، جیسے کسی ذہنی صدمے سے حمل گر سکتا ہے ویسے ہی شدید پریشانی کی صورت میں خواتین کو یہ تکلیف بھی ہو جاتی ہے۔ اب جن کو اچانک سیلاب الرٹ موصول ہوا انہیں بے سرو سامانی کی حالت میں گھروں سے نکلنا پڑا تھا۔
میڈیکل کیمپس میں نرسوں کی طرف سے راشن اور دیگر ضروریات زندگی کے ساتھ وافر مقدار میں سینٹری کٹس کی ڈیمانڈ آنا شروع ہو گئی۔ اس کے بعد پیڈز، زیر جامہ، ہائی جین لوشن اور دیگر کریمز وغیرہ بھجوانے شروع کیے گئے۔ جہاں چھ سے سات لاکھ کی آبادی بے گھر ہو جائے وہاں پر خواتین کی نصف آبادی کے لیے ان بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھنا بے حد ضروری ہے۔
اس کے ساتھ ہی کیمپس میں آنے والی حاملہ خواتین کو بھی میٹرنٹی کٹس مہیا کی گئیں تا کہ اس حالت میں ان خواتین کو مزید ذہنی اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ ان میں میٹرنٹی نیپکن، ادویات، نومولود بچوں کی ضروریات کی تمام اشیاء پیڈز، کاٹن رول اور دیگر ضروری اشیاء شامل تھیں۔ جب یہ اشیاء کیپمس تک پہنچیں اور سوشل میڈیا پر خواتین کے ان مسائل پر آواز اٹھائی گئی تو بہت سے لوگوں نے اس پر اعتراض کیا کہ احمد گروپ آف کالجز ڈونیشنز اور فنڈز غیر ضروری اشیاء پر ضائع کر رہا ہے۔ ان افراد کو موقف تھا کہ یہ پردے میں رہنے والا موضوع ہے اس پر اس طرح کھلے عام بات نہ کی جائے۔ بچے سوشل میڈیا استعمال کرتے ہیں وہ پیڈز کی تصویریں دیکھ کر رنگ برنگی سوال پوچھیں گے۔
قابل ذکر بات یہ ہے کہ سینٹری اور میٹرنٹی کٹس کے لیے زیادہ تر ڈونیشنز خواتین کی طرف سے آئے اور یہ اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ اس معاملے کی حساسیت سے آگاہ تھیں۔ دوسری بات یہ کہ میڈیکل کیمپس میں موجود نرسوں نے ان خواتین کو پیڈز استعمال کرنے کے بارے میں آگاہی فراہم کی، تیسری بات ان علاقوں میں جو لوگ دربدر ہوئے ان میں اکثریت مڈل کلاس سے تعلق رکھتی تھی اور وہ پیڈز اور دیگر اشیاء پہلے بھی استعمال کرتے تھے۔
بار بار پیڈز اور پردے کو جوڑنے والوں سے بس میرا یہی سوال تھا کہ جو خواتین گھر کے ایک جوڑے میں خیموں، راشن اور میڈیکل کیمپ میں مشکلات کا شکار ہو رہی تھیں ان کی مدد اور پردہ داری زیادہ ضروری تھی یا سوشل میڈیا پر ایسے کام کرنے والوں پر اعتراضات زیادہ ضروری تھا؟
ہم نے اتنی تعداد میں پیڈز کی خریداری پر بازار اور مارکیٹس میں جیسے کمنٹس اور نظروں کا سامنا کیا وہ ایک الگ کہانی ہے پر ہمیں احساس تھا کہ ہماری یہ مشکل ان خواتین کی مشکل کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔ ہماری سوچ صرف یہی تھی کہ سیلاب زدگان اس وقت بے گھر اور بے پردہ ہیں اور جتنی جلدی ہو ان کو کچھ سہولت دے دی جائے۔ ہماری کیمپین یہاں تک نہ رکی جب سیلاب زدہ علاقوں میں بیت الخلا کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے گیسٹرو، تعفن اور دیگر بیماریاں تیزی سے پھیلنے لگیں تب ’اے جی سی‘ کی طرف سے فوری طور پر مختلف علاقوں میں جستی چادر سے بنے بیت الخلا بھی بنوائے گئے کیونکہ خواتین سارا دن اندھیرا ہونے کا انتظار کرتیں اور رفع حاجت کے لیے ان کو بہت مشکلات کا سامنا تھا۔
جہاں سوشل میڈیا پر ایسے اعتراضات اٹھائے گئے، وہیں بہت سے دوستوں نے خواتین کے پردے اور اس سے جڑے مسائل کو سمجھتے ہوئے ان کوششوں میں ہر طرح سے ہماری معاونت کی۔ ڈیرہ اسمعیل خان، تونسہ، داجل، روجھان، کوئٹہ، دادو، شکار پور، سوات، فاضل پور اور کئی سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں یہ کٹس بھجوائی گئیں۔ ہماری کوشش تھی کہ وہاں موجود خواتین رضاکار ہی سیلاب زدگان کیمپس میں خواتین تک یہ کٹس پہنچائیں۔ ان تمام رضاکاروں اور ڈونرز کا بہت شکریہ جو اس مشکل وقت میں عملی طور پر ان متاثرین کے لیے مدد کرتے رہے، تباہی اور نقصان بہت زیادہ ہوا ہے امید ہے کہ ریلیف کا کام کرنے والے تمام دوست اور ادارے جلد متاثرین کی بحالی میں کامیاب ہو جائیں گے۔

کوئی تبصرے نہیں